شدید مذمت بیان کی۔ اب فیصلہ ہر کلمہ پڑھنے والا مسلمان خود کرے‘ ہم اکابر محدثین کی بات مانیں یا موجودہ دور کے نام نہاد مذہبی اسکالر اور وہ بھی کوٹ پتلون اور ٹائی میں ملبوس فیشن ایبل آدمی کی؟ ہرگز نہیں… ہرگز نہیں… ہم تو اکابرین اورمحدثین کی بات مانیں گے۔
یہ بات میں نے اس لئے کہی کہ 2008ء کے اوائل میں ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اپنے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’’کربلا کی جنگ سیاسی جنگ تھی‘‘ اس کے بعد یزید کو رحمتہ اﷲ علیہ کہا (اس کی ویڈیو سی ڈی مکتبہ فیضان اشرف شہید مسجد کھارادر کراچی پر موجود ہے)
ذاکر نائیک کے ان الفاظ پر پوری دنیا کے علماء کرام اورمفتیان کرام نے ذاکر نائیک کو گمراہ اور بے دین قرار دیا۔
پہلے تو ذاکر نائیک نے اس فتوے کو کوئی اہمیت نہ دی مگر جب پوری دنیا سے اس کے جواب کی مذمت کی گئی تو فورا اس نے یہ کہا کہ جو فتویٰ مجھ پر لگاتے ہو‘ وہی فتویٰ حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ پر بھی لگائو۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ ذاکر نائیک نے حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ کا فتویٰ یزید کے متعلق صحیح پڑھا اور سمجھا ہی نہیں ہے لہذا امام غزالی علیہ الرحمہ کا یزید کے متعلق فتویٰ ملاحظہ ہو۔
حجتہ الاسلام امام غزالی علیہ الرحمہ کا فتویٰ
اگر کوئی پوچھے کہ امام حسین رضی اﷲ عنہ کے قاتل اور آپ کے قتل کا حکم دینے والے پر اﷲ تعالیٰ کی لعنت ہو‘ کہنا جائز ہے؟ ہم کہتے ہیں کہ حق بات یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ آپ رضی اﷲ عنہ کا قاتل اگر توبہ کرکے مرا ہے تو اس پر خدا کی لعنت نہ ہو کیونکہ یہ ایک احتمال ہے کہ شاید اس نے توبہ کرلی ہو (بحوالہ: احیاء العلوم جلد 3 ص 122 مطبوعہ مصر)
امام غزالی علیہ الرحمہ کے فتوے سے مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوئیں۔
1۔ پہلی بات یہ ثابت ہوئی کہ حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کا قتل ناحق تھا (لہذا ثابت ہوا کہ ناحق قتل کرنے والے یزید اور یزیدی ظالم اور قاتل تھے ورنہ قاتل پر خدا کی لعنت جائز نہ ہوتی۔
2۔ دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ توبہ کی قید لگانا امام غزالی علیہ الرحمہ کے کمال تقویٰ کی دلیل ہے۔
3۔ تیسری بات یہ ہے کہ آپ نے پورے فتوے میں ذاکر نائیک کی طرح معرکہ کربلا کو سیاسی جنگ قرار نہیں دیا۔
4۔ چوتھی بات یہ ہے کہ آپ نے پورے فتوے میں ذاکر نائیک کی طرح یزید کو ’’رحمتہ اﷲ علیہ‘‘ نہیں کہا۔
5۔ پانچویں بات یہ ہے کہ یزید اور قاتلانِ حسین رضی اﷲ عنہ کی توبہ کہیں سے بھی ثابت نہیں لہذا امام غزالی کے فتوے کے مطابق امام حسین رضی اﷲ عنہ کے قاتل اور آپ کے قتل کا حکم دینے والے پر اﷲ تعالیٰ کی لعنت ہو۔
یزید کو نادم اور بے قصور کہنے والوں سے ہمارے سوالات
سوال: یزید اگر ظالم نہ تھا تو اس نے صحابی رسول حضرت نعمان بن بشیر رضی اﷲ عنہ کو معزول کرکے ابن زیاد کو کوفے کا گورنر کیوں بنایا؟
سوال: اگر اس کے کہنے پر سب کچھ نہیں ہوا تو اس نے معرکہ کربلا کے بعد ابن زیاد‘ ابن سعد اور شمر کو سزائے موت کیوں نہیں دی؟
سوال: معرکہ کربلا کے بعد اہلبیت کی خواتین کو قیدیوں کی طرح کیوں رکھا گیا؟
سوال: حضرت سیدہ زینب رضی اﷲ عنہا کے سامنے اپنی فتح کا خطبہ کیوں پڑھا؟
سوال: جب اس کے دربار میں امام حسین رضی اﷲ عنہ کا سر انور لایا گیا تو اس پر اس نے چھڑی کیوں ماری؟
سوال: اگر یزید بے قصور تھا تو اس نے گھرانہ اہلبیت سے معافی کیوں نہیں مانگی؟
سوال: معرکہ کربلا کے بعد مسجد نبوی کی بے حرمتی کیوں کی گئی؟ اور امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے تاریخ الخلفاء میں لکھا کہ مسجد نبوی میں گھوڑے باندھے گئے۔
سوال: بیت اﷲ پر یزید نے سنگ باری کیوں کروائی؟ امام سیوطی علیہ الرحمہ کے مطابق بیت اﷲ میں آگ لگی اور غلاف کعبہ جل گیا۔
کیا یزید کے لئے جنت کی بشارت دی گئی تھی؟
بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے فاتح قسطنطنیہ کو جنت کی بشارت دی تھی اور یزید بھی اس لشکر میں شامل تھا لہذا وہ جنتی ہوا۔
حدیث قسطنطنیہ ملاحظہ ہو:
حدیث شریف: حضورﷺ نے ارشاد فرمایا۔ میری امت کا وہ لشکر بخش دیا جائے گا جو قیصر کے شہر پر سب سے پہلے حملہ کرے گا (صحیح بخاری‘ جلد اول‘ کتاب الجہاد‘ باب ماقیل فی قاتل الروم ص 410)
قیصر کے شہر سے مراد کون سا شہرہے؟
قیصر کے شہر سے مراد وہ شہر ہے جو حضرت نبی کریمﷺ کے ارشاد کے وقت قیصر کا دارالمملکت تھا اور وہ حمص تھا (بحوالہ: فتح الباری جلد ششم ص 128)
قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے پہلے لشکر میں کیا یزید شامل تھا؟
البدایہ والنہایہ جلد 8 ص 31پرہے کہ قسطنطنیہ پر پہلا حملہ 43ھ میں حضرت بسر بن ارطاہ رضی اﷲ عنہ کی قیادت میں ہوا تھا (البدایہ والنہایہ جلد 8ص 31)
قسطنطنیہ پر دوسرا حملہ 46ھ میں کیا گیا تھا۔ علامہ ابن اثیر متوفی 630ھ لکھتے ہیں یعنی 49ھ اور کہا گیا 50ھ میں حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے ایک بڑا بلاد روم کی جانب جنگ کے لئے بھیجا۔ اس کا سپہ سالار سفیان بن عوف رضی اﷲ عنہ کو بنایا۔ اپنے بیٹے یزید کو حکم دیا کہ ان کے ساتھ جائے تو وہ بیمار بن گیا اور عذر کردیا۔ اس پر اس کے باپ رہ گئے۔ لوگوں کو بھوک اور سخت بیماری لاحق ہوگئی۔ یہ سن کر یزید نے یہ اشعار پڑھے۔ مقام فرقدونہ میں لشکر پر کیا بلا نازل ہوئی‘ بخار آیا کہ سرسام میں مبتلا ہوئے۔ مجھے کچھ پرواہ نہیں جبکہ میں اونچی قالین پر دیر سران میں بیٹھا ہوں اور ام کلثوم میرے بغل میں ہے۔
ام کلثوم یزید کی بیوی تھی۔ جب حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے یہ اشعار سنے تو یزید کو قسم دی کہ ارض روم جاکر سفیان کے ساتھ ہوجاتاکہ تو بھی ان مصائب سے دوچار ہو‘ جن سے غازیان اسلام ہوئے۔ اب مجبور ہوکر یزید گیا۔ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ نے اس کے ساتھ ایک بڑی جماعت کردی (بحوالہ: الکامل فی التاریخ جلد سوم ص 131)
نتیجہ: اب یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ یزید پہلے جیش میں نہیں بلکہ اس کے بعد والے جیش میں بطور ایک معمولی سپاہی اور بادل نخواستہ شریک ہوا۔
اگر بالفرض یہ بھی مان لیں کہ یزید اول جیش میں بھی شریک تھا تو اس حدیث کی وجہ سے کیا وہ جنتی ہے؟
اصول فقہ کی کتابوں میں یہ مسئلہ موجود ہے کہ ’’مامن عام الاخص منہ البعض‘‘ یعنی عموم ایسا نہیں جس میں سے بعض افراد مخصوص نہ ہوں۔ معلوم ہوا کہ ہر عموم سے بعض افراد مخصوص ضرور ہوتے ہیں۔ اس اصول کی بناء پر حفاظ حدیث قسطنطنیہ والی حدیث کے ماتحت فرماتے ہیں۔
یزید کا اس عموم میں داخل ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ کسی دلیل خاص سے اس عموم سے خارج نہیں ہوسکتا کیونکہ اہل علم میں سے کسی نے اختلاف نہیں کیا کہ حضورﷺ کا قول مغفور لہم مشروط ہے مطلق نہیں۔ وہ یہ کہ مغفور لہم وہ ہے جو بخشش کے اہل ہوں ۔ اگر کوئی فرد لشکر کا مرتد (بے ایمان) ہوجائے وہ اس بشارت مغفرت میں داخل نہیں ہوگا۔ اس بات پر تمام علماء امت کا اتفاق ہے۔ پس یہ اتفاق اس بات کی دلیل ہے کہ لشکر قسطنطنیہ کا وہ شخص مغفرت یافتہ ہے جس میں مغفرت کی شرائط مرتے وقت تک پائی جائیں (فتح الباری جلد 11ص 92 مطبوعہ نولکشور ہندوستان)
محدثین اور حفاظ کے فیصلے کی مزید توفیق
حضورﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ انسان زبان سے ’’لاالہ الا اﷲ‘‘ کہہ دے وہ جنتی ہے۔ مرزا قادیانی کے ماننے والے بھی کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں وہ کافر کیوں؟
حضورﷺ کا یہ فرمانا کہ میری امت کے تہتر فرقے ہوں گے۔ یہ فرمان اس بات کی دلیل ہے کہ وہ تمام فرقے ’’لاالہ الا اﷲ‘‘ کہنے والے ہوں گے لیکن پھر بہتر (72) جہنمی کیوں؟
بات دراصل یہ ہے کہ جو شخص کلمہ طیبہ پڑھے اور مرتے دم تک مرتد (بے ایمان) نہ ہو‘ وہ جنتی ہے۔
ہم نے آپ کے سامنے تابعین اور علمائے امت کے یزید کے متعلق تاثرات پیش کردیئے ہیں۔ اگر اب بھی کوئی زبردستی یزید کو رحمتہ اﷲ علیہ‘ امیر المومنین اور جنتی کہے تو اسے چاہئے کہ وہ یہ دعا کرے کہ :
’’اے اﷲ تعالیٰ! میرا حشر قیامت کے دن یزید کے ساتھ فرما‘‘
0 Comments