حضرت پیرسیال خواجہ محمد شمس الدین سیالوی رحمة الله عليه


صوفیاۓ عظام نے برصغیر پاک و ہند کے ظلمت کدوں کو نور اسلام سے منور فرمایاء اور اپنے قول و فعل سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ حسنہ لوگوں کے سامنے پیش کیاء یہ انہیں بزرگان دین کی بے لوث مخلصانہ کوششوں کا نتیجہ تھا کہ برصغیر میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ مشرف بہ اسلام ہوۓ اور بیسویں صدی کے وسط میں پاکستان جیسی اسلامی مملکت معرض وجود میں آئی_

ان مبلغین اسلام کی سوانح و تعلیمات سے عوام کو روشناس کروانا در حقیقت ان کے مشن کو زندہ رکھنا ہے_ ان ہستیوں میں سے ایک ہستی کا نام نامی اسم گرامی حضرت خواجہ محمد شمس الدین سیالوی رحمة الله عليه ہے آپ علیہ الرحمہ 1799ء بمطابق 1214 ہجری میں پیدا ہوۓ_

 1799ء وہ سال ہے جس میں دنیاء اسلام کے بطل جلیل سلطان ٹیپو اس ملک کو انگریزوں کے ناپاک تسلط سے بچانے کی مجاھدانہ کوششوں میں جام شہادت نوش کرتے ہیں_اسی سال رنجیت سنگھ لاہور پر قبضہ کرتا ہے انگریز برصغیر میں اپنے بڑے دشمن ٹیپو سلطان کو شہید کرنے کے بعد اعلان کرتا ہے کہ اج سے ہندوستان ہمارا ہے_
لیکن اسکو معلوم نہ تھا کہ صرف برصغیر میں ہی نہیں بلکہ دنیاء میں اسکا سب سے بڑا دشمن جنوبی ہندوستان سے سیکنڑوں میل دور پنجاب میں دریاۓ جہلم کے کنارے ایک چھوٹی سے بستی سیال شریف میں شمس الحق والدین سیالوی علیہ الرحمہ کے نام سے پیدا ہوچکا
حضرت خواجہ محمد شمس الدین سیالوی رحمة الله عليه کے والد ماجد میاں محمد یار علیہ الرحمہ نے آپ کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ فرمائی اس زمانے میں پنجاب پر سکھوں کا تسلط قائم تھا مسلمان بے پناہ مصائب میں مبتلا تھے حضرت سیالوی علیہ الرحمہ کے والد گرامی کو بھی سکھوں نے گرفتار کرلیاء ان بے پناہ مصائب کے باوجود انہوں نے اپنے لخت جگر کی تعلیم و تربیت فرمائی آپ نے زرف سات سال کی عمر میں قرآن پاک یاد کر لیاء _


آپ اپنے ماموں کے ساتھ حصول علم کے لیۓ گھر سے نکل کھڑے ہوۓ اور مکھڈ شریف میں مولوی محمد علی صاحب سے حاصل کی اور 13 سال وہاں گزارے 6 ماہ کابل میں رہ کر علم حدیث کی سند حاصل کی علم ظاہری کے بعد روحانی علم کے لیۓ آپ کابل سے واپس مکھڈشریف آۓ اور اپنے استاد مولانا محمد علی صاحب کے ساتھ سلسلہ چشت اہل بہشت کے عظیم بزرگ  تونسہ شریف کے تاجدار خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی غریب نواز رحمة الله عليه کے پاس حاضر ہوۓ سرکار تونسوی علیہ الرحمہ کی نگاہ کرم پڑی تو وہیں کے ہوکر رھے گۓ دونوں استاد شاگرد بیعت ہوگۓ اس وقت تونسہ شریف علم وحکمت کا مرکز تھا حضرت سیالوی غریب نواز علیہ الرحمہ نے یہاں سے بھی روحانی و علمی استفادہ حاصل کیاء

شجرہ نسب
انوار شمسیہ میں لکھا ہے کہ آپ کی قوم کھوکھر عرف سال ہے آپ کے آباؤ اجداد میں ایک بزرگ کا نام سیال ہوا ہے انہیں کی نسبت سے انکی اولاد سیال کہلاتی ہے یہ اس قوم سیال سے نہیں جو جھنگ میں آباد ہیں اور اپنے آپ کو راجپوت کہلاتے ہیں وہ تو نو مسلم ہیں_
بلکہ آپ علیہ الرحمہ کا مورث اعلی راجہ سیو اعلی حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر علیہ الرحمہ کی خدمت میں ایمان لایاء تھا آپکے بزرگوں میں سے ایک بہادر اور جری جوان جو کہ کڑانہ بار میں سردار تھے انکو ھندی زبان میں کھونکھار کہتے تھے جو مخفف ہو کر کھوکھر سیال کہلاتے ہیں_ فی الاصل انکا نام زمان شاہ یا زمان علی ہے جو کہ عبد العلی کے بیٹے تھے اور عبدالعلی علیہ الرحمہ وہ ھستی ہیں جنہیں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمة الله عليه نے عرب سے ھند کی ولائت عطاء کی تھی اور ملک کے پنجاب میں قطبیت کے القاب سے انکا نام قطب شاہ مشہور ہوا_
آپ کے خاندان کے مورث اعلی کا نام حضرت شیر کرم علی صاحب علیہ الرحمہ ہے جو حضرت موسی پاک شہید ملتانی علیہ الرحمہ کے مرید ہیں اور قادری سلسلہ میں بیعت تھے انکا روضہ مبارک سیال شریف کے مغرب میں دادا باغ کے نام سے آج بھی زیارت کا مرکز ہے آپ علیہ الرحمہ مدینہ شریف میں حاضر ہوۓ اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں 12سال امامت کے فرائض سرانجام دیۓ 22سال کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب میں بغداد شریف جانے کا حکم دیاء آپ بغداد شریف حضرت غوث الاعظم علیہ الرحمہ کے دربار پر حاضر ہوۓ وہاں سے خوب میں غوث الاعظم رحمة الله عليه نے فرمایاء کہ موسی پاک شہید علیہ الرحمہ کے پاس ملتان شریف جائیں چنانچہ وہاں سے آپ ملتان شریف حضرت موسی پاک شہید علیہ الرحمہ کے پاس حاضر ہوۓ اسطرح آپ نے سلسلہ قادریہ میں بیعت کی _
جب آپکی عمر 90 سال ہوئی تو اپنے پیر کے فرمان سے شادی فرمائی آپ نے دریاۓ جہلم کے کنارے ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں رھائش اختیار کی جو آپکی قیام گاہ تھی آپکی پہلی شادی سے کوئی اولاد نا ہوئی اسکے بعد آپ نے دوسری شادی فرمائی جس سے آپکے پانچ فرزند پیدا ہوۓ_


اعلی حضرت پیرسیال لجپال حضرت خواجہ محمد شمس الدین شمس العارفین سیالوی رحمة الله تعالی علیه کا شجرہ نسب پچاس واستوں سے حضرت عباس علمدار شہید کربلا رضی اللہ تعالی عنہ سے جا ملتا ہے. نسب نامہ درج ذیل ہے:
حضرت خواجہ شمس العارفین )رضی اللہ تعالی عنہ( بن میاں محمد یار بن میاں محمد شریف بن میاں برخوردار بن میاں تاج محمود بن میاں شیر کرم علی بن جان محمد بن سعداللہ بن دولت بن لنگر بن صالح محمد بن غلام محمد بن عظمت بن سلطان بن اللہ دتہ بن مقصود بن شیخ بن سارنگ بن کمال بن یعقوب بن بہت بن وریام بن سنجر بن ملائم بن گورگج بن اچھر بن عثمان بن ماہی بن جہانب بن صاحب بن چہتہ بن رسالو بن ہندال بن سال بن سانڈر بن گوڑا بن چت بن کوڈبن سجن بن زمان علی معروف کھوکھر بن قطب شاہ)عبدالعلی معروف عون( بن یعلی بن حمزہ بن طیار بن قاسم بن علی بن جعفر بن حمزہ بن حسن بن عبداللہ نزد بعضے عبیداللہ بن عباس بن حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ.

شیخ طریقت سے محبت
تاریخ مشائخ چشت کے مصنف کے مطابق خواجہ صاحب غریب نواز سیالوی علیہ الرحمہ کی اپنے شیخ سے بے انتہا محبت تھی سال میں کئ کئ بار آپ تونسہ پاک حاضر ہوتے تھے اور فیوض باطنی سے مالا مال ہوکر واپس آتے تھے آپ نے اپنے مرشد کے ساتھ 14 مرتبہ مہار شریف کا سفر فرمایاء تونسہ مقدسہ سے مہار شریف کا سفر 150 میل کی مسافت ہے آپ اپنے مرشد کا سامان اٹھاۓ ہوۓ بار محبت سے سرشار ہوکر خواجہ تونسوی غریب نواز علیہ الرحمہ کی گھوڑی کے اگے آگے دوڑتے تھے ایک دفعہ خواجہ پیرپٹھان تونسوی غریب نواز مہار شریف روانہ ہوۓ گرمی کا موسم تھا خواجہ محمد شمس الدین سیالوی علیہ الرحمہ بڑے ذوق و شوق سے وجد کناں اپنے مرشد کی گھوڑی کے آگے آگے دوڑتے جارھے تھے آپ برہنہ پاء تھے ریشم سے نرم و نازک پاؤں کے تلووں میں کانٹے چبھتے آبلے بنتے جارھے اور دھوپ قیامت ڈھا رھی تھی _زمین تپ رھی تھی اس کے باوجود آپکے ذوق و شوق میں ذرا فرق نہیں آرھا تھا اچانک مرشد کامل نے آپکو اس حالت میں دیکھا تو کھڑے ہونے کا حکم دیاء
اپنے پاپوش مبارک اتار کے دیۓ کہ انہیں پہن لو تاکہ گرم ریت اور سنگریزے نہ چبھیں آپ نے اس تحفہ کو بعد شکریہ قبول کیاء اور چوم لیا لیکن پاؤں میں پہننے کی بجاۓ اپنے سر کا تاج بنا لیاء_
کچھ وقت گزرنے کے بعد پھر پیر پٹھان غریب نواز علیہ الرحمہ نے آپکو حسب سابق ننگے پاؤں دیکھا اور پوچھا جوتے کہاں ہیں? عرض کیاء جو انکا صحیح مقام تھا انہیں وہاں سجا لیاء_
حضرت پیرپٹھان غریب نواز علیہ الرحمہ اس جذبہ نیاز مندی پر بے حد مسرور ہوۓ _اپنی گھوڑی سے نیچے تشریف لاۓ اور اپنے جواں بخت مرید کو اپنے سینے سے لگا لیاء اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے کہ اسرار و معارف کے کتنے خزینے بخش دیۓ _

مشائخ چشت کے مصنف کے مطابق تقریبا 36 سال کی عمر میں خواجہ تونسوی پیرپٹھان غریب نواز علیہ الرحمہ نے حضور اعلی حضرت سیالوی خواجہ محمد شمس الدین سیالوی علیہ الرحمہ کو خلافت سے نوازا_

زکواة درود كبريت احمر اور آپ کی مقبولیت
مصنف فوزالمقال کے مطابق حضرت حاجی ربنواز سیالوی نے بیان فرمایاء حضور اعلی حضرت پیرسیال لجپال غریب نواز علیہ الرحمہ نے درود کبریت احمر شریف کی زکواة کا طریقہ بھی ارشاد فرمایاء _
چنانچہ حضرت شمس العارفین سیالوی غریب نواز علیہ الرحمہ نے غربی قبرستان دادا باغ کی مغربی جانب جہاں اب ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد قائم ہے چلہ فرمایاء حضرت مولانا معظم الدین مرولوی علیہ الرحمہ خلیفہ مجاز کو اپنے ساتھ رکھتے تاکہ نماز باجماعت کی صورت بھی بنی رھے اور دیگر ضروری امور کی بجا آوری بھی کرتے رھیں_
بروایت حضرت مولانا معظم الدین مرولوی علیہ الرحمہ اختتام چلہ کے 40 دن بعد بوقت چاشت بڑی خوشبو پھیل گئ جس سے سارا ماحول معطر ہوگیا اور تھوڑی دیر کے بعد ایک پالکی اتری جس میں بزرگ نورانی ھستیاں اتریں جنکی حضرت خواجہ سیالوی علیہ الرحمہ نے قدم بوسی کی پھر ایک ہستی نے آپکی دستار بندی فرمائی اور دعاۓ خیر سے نوازا حضرت خواجہ شمس العارفین سیالوی علیہ الرحمہ نے پھر ان حضرات کی قدم بوسی کی اور وہ جملہ پرنور ھستیاں آنکھوں سے اوجھل ہوگئیں استفسار پر حضرت خواجہ شمس العارفین سیالوی علیہ الرحمہ نے اس شرط پر بتایا کہ انکی ظاہری حیات میں اظہار نا کریں اور فرمایا کہ ان مقدس ھستیوں میں سے ایک تو سرور کائنات آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرات خلفاۓ راشدین علیم الرضوان اور غوث الاعظم علیہ الرحمہ اور پیر پٹھان خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی غریب نواز علیہ الرحمہ کی ذوات قدسیہ تھیں...

آپکی کی کرامات
حضرت کی خدمت میں ہر قسم کے لوگ حاضر ہوتے تھے فقیر بھی,امیربھی,گدابھی,نواب بھی, عالم بھی, اور ان پڑھ بھی, اور ہر آنے والا سائل اپنی استعداد اور اپنے ظرف کے مطابق بہرہ ور ہوتا ہر شخص کی اصلاح اور تربیت کے لیۓ ایسا انداز اختیار فرماتے جو اسکے نفسیات کے عین مطابق ہوتا_
ضلع جھنگ شاہ جیونہ ایک مشہور قصبہ ہے جہاں حضرت محبوب عالم بخاری جو شاہ جیونہ علیہ الرحمہ کے نام سے مشہور ہیں آپ سلسلہ چشتیہ صابریہ کے بزرگ تھے آپکی اولاد میں سے ایک مشہور ھستی سید محمد غوث علیہ الرحمہ گزرے ہیں انکی اولاد نہ تھی آپ علاقہ کے ریئس اعظم تھے سات سو مربع زمین کے مالک تھے حضرت پیرسیال غریب نواز کی شہرت سن کے آستانہ عالیہ حاضر ہوۓ اور اپنی داستان غم سنائی تو اعلی حضرت پیرسیال غریب نواز نے کہا شاہ جی غم نا کرو اللہ تعالی آپکو دو بچے دے گا ایک کا نام صالح رکھنا اور دوسرے کا نام راجہ شاہ رکھنا اس مژدہ جانفزا کو سن کر شاہ صاحب نے آپ کے دست حق پرست پر بیعت کرلی اللہ کریم نے مرد کامل کی زبان سے نکلی ہوئی بات پوری فرمائی اور پیرانہ سالی میں دو لڑکے پیدا ہوۓ جنکو صالح شاہ اور راجہ شاہ کے ناموں سے موسوم کیا گیا دوسرے سادات کو جب پتہ چلا کہ سید غوث شاہ صاحب نے ایک جٹ کی بیعت کرلی ہے تو ملامت کی کہ تم اتنے ریئس اعظم ہو اور ایک ولی کی اولاد ہو کر ایک جٹ کا مرید قطعا آپکے شایان شان نہیں کے خلاف ہے انہوں نے سب کو یہ کہہ کر خاموش کروا دیا کہ میں نے جٹ کے کھیت کو سر سبز دیکھا تبھی ایسا کیا.

آستانہ عالیہ پر دارالعلوم کی بنیاد
حضرت خواجہ محمد شمس العارفین سیالوی علیہ الرحمہ کی دور بین نگاہ نے جلد ہی محسوس فرمایا کہ نہ صرف عامة الناس بلکہ بعض خواص تک دین اسلام اور احکام شریعت کے مبادیات سے ناواقف اور حلال و حرام اور عبادات و معاملات کے ان ابتدائی مسائل سے بھی بے بہرہ ہیں جنکی قدم قدم پر ضروریات پڑھتی ہے جنکے بغیر شریعت,طریقت,روحانیت کے مراحل طے نہیں ہوسکتے_

جنانچہ آپ نے اپنے شیخ طریقت خواجہ تونسوی غریب نواز علیہ الرحمہ کی متابعت میں مذہبی اور دینی دارالعلوم کی بنیاد ركهی اور آستانہ عالیہ سیال شریف میں علوم شرعیہ کی تعلیم و تدریس کا آغاز ہوا ابتداء میں تنہا بنفس نفیس خواجہ صاحب علیہ الرحمہ خود ہی اس مدرسہ کے صدرالمدرسین اور سارے بندوبست کے قیم اعظم اور منتظم اعلی تھے_
ڈاکٹر محمد حسین للہی لکھتے ہیں
خواجہ شاه محمد سلیمان پیرپٹھان تونسوی غریب نواز علیہ الرحمہ کے خلفاء میں سے سابق مغربی پاکستان میں سب سے ذیادہ اشاعت سلسلہ اور اشاعت علم خواجہ محمد شمس الدین سیالوی علیہ الرحمہ اور آپکے خلفاء نے کی_
آپکی عمر پاک 36 سال تھی جسمیں پیرپٹھان غریب نواز علیہ الرحمہ نے خلافت عطاء فرمائی 1834ء میں ہی آپ نے سیال شریف میں دارالعلوم ضیاء شمس الاسلام کی بنیاد رکھی جسمیں جید علماء ,تفسیر,و,حدیث ,فقہ اور تصوف کے علاوہ فلسفہ و منطق ,علم معقول کی بھی تعلیم دی جاتی ہے اور آج تک کل عالم اس سے فیض یاب ہورھا ہے


آپ کی اولاد
1-حضرت خواجہ محمد دین ثانی لاثانی علیہ الرحمہ
2-حضرت خواجہ فضل الدین سیالوی علیہ الرحمہ
3-حضرت خواجہ حافظ محمد شعاع الدین سیالوی علیہ الرحمہ

آپ کے خلفاء
حضرت شیخ الاسلام غریب نواز علیہ الرحمہ کا ملفوظ مبارک
ایک مرتبہ خواجہ شمس العارفین غریب نواز علیہ الرحمہ سخت بیمار ہوگۓ ہر ایک کو یقین ہوگیا كہ اب زندگی محال ہے کسی نے تونسہ پاک حاضر ہو کر عرض کیا غریب نواز ساہیوال والے مولوی صاحب سخت بیمار ہیں انکا آخری وقت ہے دعا فرمائیں اتفاقا اسی وقت کسی نے آپکے سامنے چینا پیش کیا تھا جو آپکے پاس ہی پڑا تھا آپ نے اسی چینے سے دونوں ھاتھوں کی ھتیلیاں ملا کر علیحدہ کیں پھر دوبارہ اور تیسری بار بھر کے فرمایا کہ اتنے تو اس نے ابھی غوث اور قطب بنانے ہیں اور تو کہیتا ہے کہ آخری وقت ہے???

آپ کے خلفاء کی تعداد کا تعین نہیں کیا جا سکتا ان کی تعداد بے شمار ہے تاہم تاریخ مشائخ چشت کے مطابق مندرجہ ذیل بزرگ قابل زکر ہیں صاحبزادہ خواجہ محمد دین علیہ الرحمہ صاحبزادہ فضل الدین علیہ الرحمہ صاحبزادہ شعاع الدین علیہ الرحمہ
پیر غلام حیدر شاہ جلالپور علیہ الرحمہ ,پیر مہر علی شاہ علیہ الرحمہ, مولوی فضل الدین چاچڑوی علیہ الرحمہ مولوی معظم الدین مرولوی علیہ الرحمہ, مولوی محمد امین ٹکوچی علیہ الرحمہ,شیخ عبدالجلیل علیہ الرحمہ, خواجہ محمد سعید شاہ زنجانی علیہ الرحمہ لاہور,حضرت قاضی احمد الدین کرسالوی علیہ الرحمہ چکوال,حضرت مولانا امام الدین گجراتی علیہ الرحمہ ساکن کلکتہ,حضرت خواجہ جندوڑا شاہ گیلانی علیہ الرحمہ وڑچھہ خوشاب,حضرت مولانا جمال الدین گھوٹوی علیہ الرحمہ ملتان,حضرت مولانا ولی احمد علیہ الرحمہ ساکن میرا شریف مانسہرہ,حضرت مرزا نواب بیگ دھلوی علیہ الرحمہ چوہدری محمد بخش سمرا علیہ الرحمہ لیہ, ملا خوشنود صاحب علیہ الرحمہ کابل, حضرت علامہ مولانا محمد امین ٹکوچی علیہ الرحمہ اٹک, حضرت خواجہ فضل شاہ حطاروی علیہ الرحمہ ایبٹ آباد,_


اعلی حضرت پیرسیال لجپال غریب نواز نے سیال شریف میں اپنا خانقاہی نظام اعلی پیمانے پر قائم فرمایا ان کے یہاں لنگر کا خاص اہتمام ہوتا تمام زائرین اور مسافروں کو کھانا لنگر خانے سے ملتا تھا شہر کے مفلسوں اور مسکینوں کو بھی کھانا دیا جاتا تھا قیام و طعام کا انتظام بہت اچھا تھا چارپائی اور بستر ہر آنے والے کے لیۓ مہیا کیۓ جاتا جو کہ مستقلا خانقاہ میں رہتے تھے ان کو کپڑا بھی دیا جاتا

وصال اور کوائف وصال
یکم جنوری 1883ء بمطابق صفرالمظفر 1350ھ کو خواجہ محمد شمس الدین شمس العارفین سیالوی رحمة الله عليه واصل بحق ہوۓ _
مرآة  العاشقين میں آپکے وصال مبارک کا حال بڑی تفصیل سے مندرج ہے اس کے مؤلف خواجہ سید محمد سعید شاہ زنجانی لاہوری علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ 18 صفرالمظفر 1300ھ بروز ھفتہ قدم بوسی کی سعادت حاصل ہوئی علی الصبح جب آپ تہجد کی نماز سے فارغ ہوۓ تو آپکو بخار کا عارضہ لاحق ہوگیا اور کئ قسم کی دوائیں کی گئیں لیکن فائدہ نہ ہوا _حتی کہ ضعف بدن انتہا کو پہنچ گیا صاحبزادہ محمد دین سیالوی علیہ الرحمہ 21 صفرالمظفر بروز منگل کو تونسہ پاک سے واپس آۓ اور حضرت خواجہ محمد شمس العارفین سیالوی علیہ الرحمہ کی مزاج پرسی کی آپ نے حسب مقدمہ گفتگو کی اور تونسوی صاحبزادگان  اور درویشوں کے حالات دریافت کۓ _
خواجہ شمس العارفین سیالوی غریب نواز علیہ الرحمہ نے اپنے وصال سے 39,دن پہلے اپنی وفات کی خبر دے دی تھی 15 محرم الحرام بروز سوموار بوقت چاشت آپ نے صاحبزادہ محمدالدین سیالوی ثانی لاثانی علیہ الرحمہ کو اپنے پاس بلا کر وصیت فرمائی اور دوسرے لوگوں کو حجرے سے رخصت کیا 21 صفرالمظفر کو 1 لاکھ درود شریف پڑھا گیا اور ایک بکری اور کچھ غلہ صدقے کے طور مسکینوں میں تقسیم کیا گیا اور 24 صفرالمظفر 1300 ھ بروز جمعہ نماز صبح کے بعد آپ زکر پاس انفاس فرماتے رھے مجلس نشینوں پر نگاہ رخصت ڈالی چہرہ انور قبلہ کی طرف پھیر لیا وجود مسعود میں جنبش ہوئی علامات وصال طاری ہوئیں حاضرین رونے لگ گۓ لمحہ کے بعد ایک سانس بھری اور جان ملا اعلی کی طرف چلی گئی "انالله وانا اليه راجعون"

الله كريم اپنے پیارے حبیب اور ہمارے رؤف و رحیم آقا صلی الله عليه وآله وسلم كے صدقے حضور مرشد كريم حضور امير شريعت مدظله العالى كو سكھ صحت تندرستی کے ساتھ سدا سلامت رکھیں آپکا سایہ غلاموں پر سدا قائم و دائم رھے
آمین ثم آمین

Tahreer: Gulam Murtaza Hameedi Sialvi

Post a Comment

1 Comments

  1. بہب خوب جناب غلاغ مرتضی حمیدی
    ایا جگہ تحریر کی غلطی ہے تصحیح کی جائے وصال پاک 1300 ہجری ہے 1350 لکھا ہے

    ReplyDelete
Emoji
(y)
:)
:(
hihi
:-)
:D
=D
:-d
;(
;-(
@-)
:P
:o
:>)
(o)
:p
(p)
:-s
(m)
8-)
:-t
:-b
b-(
:-#
=p~
x-)
(k)