Mirza Ghaleez Qadiani

اس کے رشتے دار اس کو اچھی طرح جانتے تھے اس لئے اس کی بونگیوں پر دھیان نہیں دیا کرتے تھے۔ اس کی پیٹھ پیچھے اس کا مذاق اڑایا کرتے ۔ وہ اکثر کہا کرتے کہ یہ گامی کانا (غلام قادیانی ملعون) بیماریوں اور مقدمے بازیوں کی وجہ سے پاگل ہوکر چولیں مارنے لگ گیا ہے۔ لوگ بھی کہتے کہ تم لوگوں کو تو تبلیغ کرتے ہو لیکن تمہارے اپنے ہی رشتے دار تم سے دور بھاگتے ہیں ۔ اس بات پر اسے بھی تکلیف تو ہوتی تھی لیکن مجبوری یہ تھی کہ پورا خاندان اس کے ماضی سے واقف تھا ، وہ سبھی جانتے تھے یہ پکا حرامی ہے اور انگریزوں کی خوشنودی کے حصول کی خاطر لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے۔
اسی زمانے میں اس کا ایک کزن ہوا کرتا تھا جس کا نام مرزا احمد بیگ تھا اس کی ایک بڑی لڑکی تھی جس کا نام محمدی بیگم تھا۔محمدی بیگم اچھی خاصی خوش شکل نوجوان لڑکی تھی ۔ اس کا دل اس پر آگیا اور یہ اسکے پیچھے لگ گیا۔ اس کا پروگرام تھا کہ اگر کسی طرح محمدی بیگم سے شادی ہوگئی تو یہ اسے بھی گمراہ کر لے گا اور آہستہ آہستہ اس کے ذریعے اس کے ماں باپ کو بھی لائن پر لے آئے گا اس طرح لوگوں کا منہ بھی بند ھوجائے گا اور محمدی بیگم بھی مل جائے گی۔ اس نے محمدی بیگم کو اپنے دام میں پھنسانا چاہا لیکن محمدی بیگم ایک تو بہت شریف اور مضبوط ایمان کی لڑکی تھی دوسرا وہ بوڑھے گامی کانے (غلام قادیانی) کی شخصیت یعنی بیماریوں کے مارے اور بھینگے گمراہ بڈھے سے شدید نفرت کرتی تھی۔ اس نے اسے بری طرح ڈانٹ کر اس سے جان چھڑا لی۔ لیکن غلام قادیانی اس کے لئے پاگل سا ہوگیا تھا۔
یہ 1888 ء کی بات ہے ۔ انہی دنوں محمدی بیگم کے باپ مرزا احمد بیگ کو غلام قادیانی سے ایک پڑ گیا۔ اسے زمین کی منتقلی کے ایک مقدمے میں غلام قادیانی کے دستخطوں کی ضرورت تھی چنانچہ وہ اغلام قادیانی کے پاس آیا اور اس سے اپنا مدعا بیان کیا۔ جیسا کہ آپ دوستوں کو معلوم ہے کہ غلام قادیانی بہت بڑا خبیث تھا چنانچہ اس نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کا پروگرام بنایا۔ کہنے لگا میری عادت کہ میں ہر کام سے پہلے استخارہ کیا کرتا ہوں لہذا میں پہلے استخارہ کروں گا پھر فیصلہ کروں گا کہ دستخط کروں یا نہ کروں ۔ چنانچہ مرزا کے بقول اس نے استخارہ کیا تو اس کے خدا نے اسے یہ حکم دیا کہ صرف اس شرط پر احمد بیگ کی درخواست پر دستخط کرو کہ وہ اپنی بیٹی محمدی بیگم کا نکاح تمہارے ساتھ کر دے۔ اگلے روز اس نے اپنا من گھڑت استخارہ مرزا احمد بیگ کو سنایا۔ احمد بیگ کو اس کی یہ بکواس سن کر غصہ آگیا۔ اس نے اسے گالیاں بھی دیں اور ساتھ کہا کہ میں زمین کی خاطر اپنی بچی کے ایمان اور زندگی کا سودا نہیں کر سکتا۔اس پر اس نےاحمد بیگ کو ڈرانے کے لئے 10 جولائی 1888 ء کو حسب عادت اخبار میں اپنے الہام کا اشتہار دے دیا۔
اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت برا ہوگا اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی وہ روزِ نکاح سے اڑھائی سال تک اور ایسا ہی والد اس دختر کا تین سال تک فوت ہوجائے گا ( مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 158 )
ذرا آگے لکھا :۔
" معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ نے یہ مقرر کر رکھا ہے کہ وہ مکتوب الیہ ( یعنی احمد بیگ : ناقل ) کی دختر کلاں کو جس کی نسبت درخواست کی گئی تھی ہر ایک روک دور کرنے کے بعد انجام کار اسی عاجز(غلام قادیانی) کے نکاح میں لاوے گا " ( حوالہ سابقہ )
یعنی سادہ الفاظ میں اللہ تعالی نے تقدیر میں لکھ دیا ہے کہ اس لڑکی محمدی بیگم کی شادی غلام قادیانی سے ہر صورت میں ہو کر رہے گی اگر کہیں اور رشتہ ہو بھی رہا ہوگا تو وہ ناکام ہو جائے گا۔
یہ دو مختلف باتیں تھیں ایک طرف تو تقدیر میں لکھ دیا گیا تھا اور دوسری جانب دھمکی بھی تھی کہ اگر ایسا نہ ہوا تو لڑکی کا خاوند اڑھائی سال میں مر جائے گا (لڑکی کا خاوند غلام قادیانی کے جہنم واصل ہونے کے بعد بھی 44 سال تک زندہ رہا)
غلام قادیانی نے احمد بیگ کو لالچ بھی دیا اور یوں کہا :۔
اللہ نے میری طرف وحی کی ہے کہ اس سے اس کی بڑی لڑکی کا رشتہ اپنے لئے مانگو ، اور اس سے کہہ دو کہ پہلے تمہیں اپنا داماد بنائے پھر تم سے فائدہ حاصل کر سکتا ہے ، اور یہ بھی بتاؤ کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہیں وہ زمین بھی دے دوں گا جو تم مانگ رہے ہو اور اس کے ساتھ اور زمین بھی دوں گا اور میں تم پر اس کے علاوہ اور احسانات بھی کروں گا " ( ترجمہ عربی تحریر ، خزائن جلد 5 صفحات 572 تا 573 )
بلکہ غلام قادیانی نے محمدی بیگم کے والد کو اس رشتے کے بدلے میں یہاں تک پیش کش کر دی کہ :۔
" میں تم سے عہد کرتا ہوں کہ تمہاری بیٹی کو اپنی زمین کا بلکہ اپنی کل مملوکہ ہر چیز کا تیسرا حصہ دوں گا اور جو کچھ تم مانگو گے وہ بھی دوں گا " ( خزائن جلد 5 صفحہ 573 )
لیکن محمدی بیگم کے باپ نے اپنی بیٹی کا رشتہ غلام ا قادیانی کو دینے سے صاف انکار کردیا تو پھر اس نے پینترا بدلا اور کہا کہ تم جو مرضی کر لو اس لڑکی کو تو ہرحال میں میرے نکاح میں آنا ہی ہے ۔ چنانچہ لکھا :۔
" سو خدا تعالیٰ نے سب کے تدراک کے لئے جو اس کام کو روک رہے ہیں ( یعنی جو اس رشتہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں : ناقل ) تمہارا مددگار ہوگا اور انجام کار اس کی اس لڑکی کو تمہاری طرف واپس لائے گا کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے تیرا رب وہ قادر ہے کہ جو کچھ چاہے وہی ہوجاتا ہے " ( مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 158 )
مورخہ 2 مئی 1891ء کو مردود قادیانی نے ایک اور اشتہار نکالا جس میں لکھا :۔
" خدا تعالیٰ کی طرف سے یہی مقدر اور قرار یافتہ ہے کہ وہ لڑکی اس عاجز کے نکاح میں آئے گی خوا پہلے ہی باکرہ ہونے کی حالت میں آجائے یا خدا تعالیٰ بیوہ کرکے اس کو میری طرف لے آوے " ( مجموعہ اشتہارات جلد1 صفحہ 219 )
بتاریخ 28 دسمبر 1891ء ایک بار پھر غلام قادیانی نے ایک اشتہار شائع کیا اور اس میں یہ لکھا کہ اسے یہ الہام ہوا ہے :۔
" اور تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ بات سچ ہے ، کہہ ہاں مجھے اپنے رب کی قسم ہے کہ یہ سچ ہے اور تم اس بات کو وقوع میں آنے سے نہیں روک سکتے ، ہم نے خود اس سے تیرا عقد باندھ دیا ہے اور میری باتوں کو کوئی بدلا نہیں سکتا " ( مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 301 )
آپ نے دیکھا کہ غلام قادیانی کے دعویٰ کے مطابق اس کے خدا نے اس کا عقد یعنی نکاح محمدی بیگم کے ساتھ باندھ دیا تھا ۔
اس وقت چونکہ محمدی بیگم ابھی کنواری تھی اس لئے مردود اپنی پیش گوئیوں میں یہی کہتا رہا کہ وہ میرے نکاح میں ضرور آئے گی چاہے کنواری ہونے کی حالت میں چاہے بیوہ کی حالت میں ، لیکن محمدی بیگم کے گھر والوں نے مرزا قادیانی کے لالچ اور بعد از دھمکی آمیز پیش گوئیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپرہل 1892ء میں محمدی بیگم کا نکاح موضع پٹی صلع لاہور کے رہنے والے ایک شخص سلطان محمد بیگ کے ساتھ کردیا اس طرح مرزا کی آسمانی منکوحہ کو سلطان محمد لے گیا ( آپ پڑھ چکے ہیں کہ مردود قادیانی کے مطابق اس کے خدا نے اس نکاح محمدی بیگم کے ساتھ کردیا تھا ) چنانچہ قادیانی کی امیدوں پر پانی پھر گیا ، اب اگر مردود قادیانی کی جگہ کوئی شریف آدمی ہوتا تو خاموشی اختیار کر لیتا کیونکہ اب محمدی بیگم کسی اور کی منکوحہ تھی اور شریف آدمی کو زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی دوسرے کی بیوی کے نام اشتہاروں میں اچھالتا رہے ، لیکن غلام قادیانی نے انتہائی غیر شریفانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے اشتہار پر اشتہار نکالنے شروع کردئیے جن میں دھمکیاں ہوتیں کہ اب لڑکی بیوہ ہوگی اور ضرور ہوکر رہے گی ۔ بیوہ ہونے کے بعد اب وہ اس کے پاس خود آئے گی اور اس سے نکاح کرے گی۔ لیکن لڑکی نہ تو بیوہ ہوئی اور نہ ہی اس کے پاس آئی ۔ مرزا احمد بیگ کافی عمر رسیدہ تھا چنانچہ بیماری کے بعد مر گیا ۔لیکن محمدی بیگم اس کے پاس واپس نہ آئی ۔
البتہ ایک مسلہ خراب ہوگیا۔ غلام قادیانی کے سینکڑوں اشتہارون کی وجہ سے لوگوں کو محمدی بیگم کے بارے تجسس ہوا کہ اس باکمال لڑکی کو تو دیکھیں جس نے غلام قادیانی کو جھوٹا کر کے رکھ دیا ہے اس کے باوجود ابھی تک غلام قادیانی اس کا پیچھا نہین چھوڑ رہا۔ لوگ اس کا پتہ پوچھتے اس کے سسرال آنے لگے ۔ آگے سے محمدی بیگم جو پہلے ہی غلام قادیانی کی بکواسیات کی وجہ سے سخت نالاں تھی خالص پنجابی قسم کی ننگی گالیاں آنے والوں کو دیتی اور اس سے دوگنی مقدار میں غلام قادیانی کو دیتی۔ لوگ جب غلام قادیانی کو جا کر بتاتے کہ آپ کی آسمانی منکوحہ تو آپ پر تبرے بھیج رہی ہے تو بوڑھا غلام قادیانی دکھی ہوجاتا ، غصے میں آ کر بکنے جھکنے لگتا۔ لڑکی اور اس کے خاوند کو بددعائیں دینے لگتا۔ایک بار پھر اس کے خلاف اشتہار دینے لگتا۔ اس عام سی لڑکی نے اس کی نبوت اور پشین گوئیوں کی ایسی کی تیسی کرکے رکھ دی تھی۔ محمدی بیگم اس کے بڑھاپے کا عشق تھی جس نے اس کی زندگی کو روگ لگا دیا تھا۔ بیماریوں ، عشق ناکام اور بڑھاپے کی وجہ سے بالآخر مردود غلام قادیانی لیٹرین میں اپنی ہی گندگی کے اوپر منہ کے بل گر کر 1908 میں جہنم واصل ہوگیا۔
لیکن محمدی بیگم کا قصہ آج تک ختم نہیں ہوسکا۔مردود نے محمدی بیگم کے بارے سینکڑوں پشین گوئیاں کی تھیں اور سب کی سب جھوٹ ثابت ہوگئی تھیں ۔ یہ پشین گوئیاں قادیانیوں کے لئے گلے کا ایسا پھندا بن گئیں جن میں آج بھی قادیانی پھنسے ہوئے ہین اور نکلنے کی بسیار کوشش کے باوجود نکل نہیں پا رہے۔
محمدی بیگم سنہء 1966 میں اس دار فانی سے رخصت ہوگئی ۔ اللہ پاک نے اس کا اوراس کے خاوند کا ایمان سلامت رکھا۔ یعنی مردود قادیانی کی ۔۔۔۔۔۔تک زور لگانے کے باوجود اس کی نہ بن سکی۔ لیکن یہاں بھی ایک خرابی ہوگئی۔محمدی بیگم بارے پشین گوئیاں پوری نہ ہونے کی وجہ سے قادیانی انبیاء کی بدترین توہین کرنے لگے جو آج بھی جاری ہے، قادیانیوں کو جب محمدی بیگم کا حوالہ دے کر جھوٹا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو آگے سے مردود انبیا پر جھوٹ باندھنے لگتے ہیں کہ دیکھیں جہ فلاں نبی کی بھی پشین گوئی پوری نہیں ہوئی تھی۔
قادیانی بیوقوفو! تم پر رحم آتا ہے ۔ ایک جھوٹے کے ناکام دفاع کے لئے تم انبیاء کی جس توہین کے مرتکب ہوتے ہو اس کی وجہ سے تمہاری آخرت کا بیڑہ غرق ہوجاتا ہے ۔ یاد رکھو۔۔۔ سچے نبیوں کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی پشین گوئیاں لفظ بہ لفظ پوری ہوتی ہیں۔ حضرت یونس علیہ السلام کی تم جو مثال دیتے ہو تو سن لو اس قوم نے جب اللہ سے رو رو کر معافی طلب کرلی تھی تو اللہ نے اپنی بے پناہ رحمت سے ان پر سے عذاب ٹال دیا تھا۔ جبکہ محمدی بیگم اور اس کا کاوند آخر وقت تک غلام قادیانی کو ننگی گالیاں دیتے رہے اور اس پر انہوں نے کبھی اس سے معافی بھی نہیں مانگی تھی۔
(چیلنج::::::: کوئی بھی قادیانی حوالہ جات چیک کرکے ادھر پوسٹ پر ھی اگر چاھے تو اعتراض کرسکتا ھے انشااللہ بھرپور تسلی کی جائے گی۔ )

Post a Comment

0 Comments